پاکستان تحریک انصاف کے مرحوم کارکن ذول شاہ کے والد نے اُردو پوائنٹ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک اہم انکشاف کیا ہے جو ان کے بیٹے کی المناک موت پر روشنی ڈالتا ہے۔
پس منظر
ذول شاہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی جماعت کے ایک سرگرم رکن تھے، جو سماجی انصاف اور مساوات کے لیے اپنی مضبوط وکالت کے لیے مشہور تھے۔ وہ حکومت میں بدعنوانی کے سخت ناقد اور انسانی حقوق کے پرجوش حامی تھے۔
تاہم، ایک ناخوشگوار دن، ذول شاہ پر وحشیانہ حملہ کر کے ہلاک کر دیا گیا، جس سے اس کے خاندان اور حامیوں کو صدمے اور غم میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس کی موت نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا اور انصاف کے مطالبات کئے۔
باپ کا انکشاف
اُردو پوائنٹ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ذول شاہ کے والد نے ایک اہم معلومات شیئر کیں جو ممکنہ طور پر کیس کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
ان کے مطابق ذول شاہ کو ان کے قتل سے پہلے کئی دنوں میں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ اس نے ان دھمکیوں کے بارے میں پولیس کو بھی آگاہ کیا تھا لیکن اس کی حفاظت کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
والد کا خیال ہے کہ حکام ذول شاہ کے خطرے سے آگاہ تھے لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں اس کی المناک موت واقع ہوئی۔
کے اثرات
اس انکشاف نے ایک بار پھر پاکستان میں سیاسی تشدد اور سیاسی کارکنوں کے بہتر تحفظ کی ضرورت کو سامنے لایا ہے۔ اس نے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
ذول شاہ کے اہل خانہ اور حامی اس معاملے کی مکمل تحقیقات اور اس کی موت کے ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نتیجہ
ذول شاہ کی موت ان کے خاندان، دوستوں اور مجموعی طور پر پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک المناک نقصان تھا۔ ان کے والد کا انکشاف ملک کے نظام انصاف میں اصلاحات اور سیاسی کارکنوں کے لیے بہتر تحفظ کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کیس کی تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری کارروائی کریں۔ پاکستان کے لوگ ایک محفوظ اور انصاف پسند معاشرے کے مستحق ہیں جہاں وہ تشدد یا ظلم و ستم کے خوف کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔